زبور 1
تفسیر و تشریح
(یونس فرانسس)
اوہ دھن ہے جو نہ من دا ہے صلاح شریراں دی
نہ ٹر دا اے اوہ بریاں دے راہ اتے کدی وی
زبور نویس نے نہایت خوبصورتی سے فلسفہ حیات، اخلاقیات، الہیات اور روحانیت جیسے وسیع موضوعات کو صرف چھ آیات میں سمو دیا ہے۔
زندگی میں ہمیں قدم قدم اہم فیصلے اور انتخابات کرنے پڑتے ہیں اور ان کے نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یہ فیصلے اور انتخابات یا تو ہمیں سرفرازی و شادمانی بخشتے ہیں یا ہمیں ذلت و رسوائی کی دلدل میں دھکیل دیتے ہیں۔
خدا کی ذات پر ایمان، اس کے احکامات کی پیروی اور
ہمارا طرز زندگی، کردار اور حسن سلوک نہ صرف اس دنیا میں ہمارے مقام و مرتبہ کا باعث بنتا ہے۔ بلکہ بعد از موت بھی ہماری سزا و جزا اور جنت و جہنم کا تعین بھی کرتا ہے۔
زبور نویس اس زبور میں اسی حقیقت کی طرف ہماری توجہ مبذول کرواتا ہے کہ ہم زندگی کا جائزہ لیں کہ کس راہ پر چل رہے ہیں، اور ہماری منزل کیا ہے۔
مرکزی موضوع
زندگی میں کئے گئے انتخابات و فیصلہ جات کا انعام و انجام
زبور نویس چند سطور میں نہایت خوبصورتی سے موجودہ زندگی اور بعد از موت زندگی کی حقیقت کو بیان کرتا ہے۔
وہ محض چند الفاظ میں ہماری توجہ اس بات کی طرف مبذول کرواتا ہے کہ زندگی میں دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔
نیکو کار اور بدکار
آگے چل کر وہ ان کی خصوصیات، اوصاف اور حرکات کا موازنہ کرتے ہوئے آخرت میں ان کے انعام و انجام کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
وہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ خدا نے ہمارے سامنے دو راستے رکھے ہیں۔
زندگی اور موت کا رستہ
برکات و رسوائی کا رستہ
یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کون سے راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔
اورکس منزل کو ترجیح دیتے ہیں۔
برگزیدوں کی صحبت یا شریروں کی
ہم پانی پہ لگا پھل دار درخت بننا چاہتے ہیں
یا پھر بھوسے کی طرح نیست و نابود ہونا چاہتے ہیں۔
فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔
کس راہ پہ چلنا ہے
کونسی منزل پہ پہنچنا ہے۔
بھوسے کی مانند
ہمیشہ جلنے والی آگ کا ایندھن بننا ہے۔
یا پھر برگزیدوں کے لئے تعمیر شدہ
مسکن کا مکیں۔
٭
اس زبور کا آغاز لفظ مبارک سے کیا گیا ہے۔
مبارک عبرانی لفظ ایشر کا ترجمہ ہے۔
اس لفظ میں معنی و مفہوم کا ایک خزانہ پنہاں ہے۔
اس کے لغوی معنی
خوشی، مسرت، راحت، قناعت، سکون
قرار اور اطمنان کے ہیں۔
لفظ آشیر خوشی اور خوش نصیبی کے معنوں میں پہلی مرتبہ تکوین 30:13 میں استعمال کیا گیا ہے۔
جب زلفہ سے یعقوب کے لئے دوسرا بیٹا پیدا ہوا
تو لیاہ بولی
خوش نصیب۔
اور عورتیں مجھے خوش نصیب کہیں گی۔
اور اس نے اس کا نام آشیر رکھا۔
انگریزی میں لفظ مبارک کے لئے بارہا لفظ
blessed
استعمال کیا گیا ہے۔
ایشر کا لفظ در اصل اشار سے نکلا ہے جس کے معنی
سیدھا، کامل۔ درست ہونا کے ییں.
لہذا مبارک ہونا کے معنی
کامل ہونے، خوش و خرم ہونے، قناعت پسند یا پرسکون ہونے کے ہیں۔
ان تمام کیفیات و صفات کا تعلق خدا کی ذات سے ہے.۔
لہذا مبارک ہے وہ شخص جو خدا پر ایمان لاتا اور اس پر توکل رکھتا ہے۔
٭
اس زبور میں مبارک شخص کی مندرجہ ذیل خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔
وہ شریروں کی صلاح پر نہیں چلتا۔
خطاکاروں کی راہ میں قدم نہیں رکھتا۔
ٹھٹھابازوں کی مجلس میں نہیں بیٹھتا۔
اس کی مسرت خداوند کی شریعت میں ہے۔
وہ اس درخت کی مانند ہے جو پانی کی لہروں کے پاس لگایا گیا ہے۔
جو اپنے وقت پر پھل دیتا ہے۔
جس کے پتے نہیں مرجھاتے۔
وہ جو کچھ کرتا ہے کامیاب ہوتا ہے۔
اس کے برعکس شریر کا انجام کچھ یوں بیان کیا گیا ہے۔ کہ
وہ بھوسے کی مانند ہے جسے ہوا اڑا لے جاتی ہے۔
اس لئے شریر عدالت میں قائم نہ رہیں گے۔
اور نہ خطاکارصادقوں کی جماعت ہی میں
اور ان کی راہ نابود ہو جائے گی.
٭
مبارک شخص کا اجر یا انعام
مندرجہ بالا آیات پر دھیان و گیان سے یہ بات واضع ہے کہ
مبارک اور شریر شخص کی سوچ، کردار اور اخلاق میں زمین و آسمان کا فرق پایا جاتا ہے.
مبارک آدمی شریروں کی صلاح کی بجائے
خدا کے کلام کی طرف رجوع کرتا ہے۔کیونکہ وہ جانتا ہے کہ
اس کی راہیں مستقل ہیں۔ اور وہی فہم عطا کرتا ہے۔
زبور 119: 5، 125
کسی بھی شخص کے مبارک ہونے کا راز خدا کی شریعت پر دھیان و گیان
غور و خوض
سوچ و بچار اور اس کی پیروی میں ہے۔.
مبارک آدمی روح کے پھلوں اور نعمتوں سے معمور ہوتا ہے.
شریروں کا انجام
جہاں مبارک اور برگزیدہ شخص کی زندگی پرسکوں اور با برکت ہوتی ہے وہیں شریروں کی زندگی
بے سکونی و بے قراری، ذلت و رسوائی
پستی و بدحالی، نادانی و گمراھی میں گزر جاتی ہے۔
ان کی راہیں معدوم اور نام ونشان نابود ہو جاتے ہیں۔
٭
اس زبور میں مبارک کو تناور درخت
اور شریر کو بھوسے سے تشبیہ دی گئی ہے۔
تناور درخت کی خوبی ہے کہ وہ
اپنی جگہ پر قائم و دائم رہتا
پھلتا پھولتا، سبز و شاداب
پھلدار ہوتا اور کڑی دھوپ میں دوسروں کو سایہ فراہم کرتا ہے۔
٭
جبکہ اس کے بر عکس بھوسہ ہوا کے رحم و کرم پہ ہوتا ہے۔
وہ اسے جس سمت چاہے اڑا کر لے جاتی ہے۔
بھوسہ بے جان وبے ذائقہ ہوتا ہے۔
سوائے جانوروں کا چارہ بننے اور جلائے جانے کے اس کوئی ایمیت اور مقام نہیں ہوتا۔
٭
اس زبور میں ہمارے لئے اہم سبق پنہاں ہیں کہ ہم
اپنی زندگی کا جائزہ لیں کہ
ہم کس راہ پر چل رہے ہیں۔
کس مقام پر کھڑے ہیں
اورہماری منزل کیا ہے۔
زندگی کی جس ڈگرپر ہم چل رہے ہیں۔
اس کے اختتام پر ہمارا انعام یا انجام کیا ہو گا۔
زندگی میں ہر شخص خوشی و مسرت کے لئے سرگرداں رہتا ہے۔
یہ زبور محض چند آیات میں بڑی خوبصورتی سے حقیقی زندگی
کے راز بیان کرتا اور دائمی برکات کے حصول کی راہ دکھاتا ہے۔
زبور نویس اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ
دائمی زندگی اور خوشی و مسرت کی بنیاد انسان کے انتخابات اور ترجیحات پر ہوتی ہے۔
اس زبور میں دو راہوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
ایک راہ دائمی زندگی کی طرف لے کر جاتی ہے۔
جب کہ دوسری راہ ہلاکت کی طرف۔
فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔
کہ ہم کون سی راہ چنتے ہیں اور کس منزل کو ترجیع دیتے ہیں۔
خداوند فرماتا ہے کہ
اور آج کے دن میں آسمان اور زمین کو تم پر گواہ لاتاہوں۔
کہ میں نے زندگی اور موت اور برکت ولعنت تمہارے سامنے رکھی ہے۔ پس تم زندگی کو چن لو۔ تا کہ تو اور تیری اولا د زندہ رہے۔
تثنیۂ شرع 30: 19
خداوند یسوع مسیح فرماتے ہیں کہ
تنگ دروازے سے داخل ہو۔ کیونکہ چوڑا ہے وہ دروازے اور کشادہ ہے وہ راستہ جو ہلاکت کو پہنچاتا ہے۔ اور بہت ہیں جو اس سے داخل ہوتے ہیں۔
وہ دروازہ کیسا تنگ اور وہ راستہ کیسا سکڑا ہے جو حیات کو پہنچاتا ہے۔
اور تھوڑے ہیں جو اسے پاتے ہیں۔
متی 7: 13-14
خدا کی رضا یہی ہے کہ ہم زندگی اور برکت کی راہ کو چنیں تاکہ ہمیشہ کی زندگی کے وارث بنیں۔
وہ چاہتا ہے کہ ہم تنگ دروازے اور سکڑے راستے پر چلیں۔
کیونکہ اسی پہ چل کر ہم ابدی حیات کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔
خدا چاہتا ہے کہ ہر کوئی مبارک ٹھہرے اور
حقیقی اور ابدی زندگی کا وارث بنے۔
اسی لئے اس نے اپنے پیارے بیٹے کو اس دنیا میں بھیجا۔ جیسا کہ لکھا ہے۔
کیونکہ خدا نے دنیا کو ایسا پیار کیاکہ اس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو۔ بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔
یوحنا 16: 3
میں اس لئے آیا ہوں
کہ وہ زندگی پائیں بلکہ کثرت سے پائیں۔
یوحنا 10: 10
٭
زبور نویس ہمیں زندگی کی روز مرہ مصروفیات
اور لامتناہی تفکرات سے وقت نکال کر
خدا کی حضوری میں بیٹھ کر
اپنے انتخابات و ترجیحات
اور فیصلوں کا جائزہ لینے کی دعوت دیتا کہ ہم دیکھیں
کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔
روزِ آخر ہمارا انعام یا انجام کیا ہو گا۔
کیا ہمارا مقدر بھوسے کی مانند
جلنے والی آگ کا ایندھن بننا ہے۔
یا پھربرگزیدوں کے لئے تعمیر شدہ مسکن۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔