مقدس آگسٹین
سوانح حیات، روحانیت اور الہیات
تحریر و تحقیق - یونس فرانسس
اے خداوند تو نے ہمیں اپنے لئے خلق کیا ہے۔
اور ہمارے دل تب تک بے سکون و بے قرار رہتے ہیں۔
جب تک تجھ میں سکون نہیں پاتے۔
اعترافات 1 باب 245
مقدس آگسٹین اپنی شہرہ آفاق سوانح حیات اعترافات کا آغاز مندرجہ بالا الفاظ میں کرتے ہیں۔ یہ الفاظ مقدس آگسٹین کی دنیاوی زندگی کے عمیق مطالعہ و مشاہدہ، روحانی و ایمانی کیفیات و تجربات، علمی و ادبی تخلیقات اور حکمت و دانائی کا نچوڑ ہیں۔ اعترافات بنیادی طور پر مقدس آگسٹین کی زندگی کے سفر میں پیش آنے والی ان دنیاوی رکاوٹوں اور مراحل کا تذکرہ ہے۔ جن میں سے گزر کر وہ ایمانی و روحانی منزل تک پہنچا۔
اعترافات 394 - 400 کے درمیان لاطینی زبان میں لکھی گئی۔ اعترافات کو مغربی مسیحیت میں پہلی سوانح حیات کا درجہ حاصل ہے۔ یہ محض ایک سوانحِ حیات ہی نہیں۔ بلکہ اس میں وہ اپنی اوائل جوانی کی بے راہروی، گناہ آلود زندگی، ذہنی اور روحانی کشمکش، کیفیات، تجربات اور جدوجہد کا بڑی بے باکی سے تذکرہ کرتے ہیں۔ جہاں ایک طرف وہ اپنی گناہ آلود زندگی پر پچھتاوے کی داستاں بیان کرتے ہیں تودوسری طرف اُن لمحات کا نہایت خوبصورتی سے ذکر کرتے ہیں جب انہوں نے پہلی بار خداوند کی محبت اور شفقت کا تجربہ کیا اور ان کی زندگی ہمیشہ کے لئے تبدیل ہو گئی۔ اور ان کی روحانی اور ذہنی جستجو آسودہء منزل ہوئی۔ ان کی زندگی اس حقیقت کی بہترین مثال ہے کہ قلبی، ذہنی اور روحانی سکون دنیا میں اگر کوئی عطا کر سکتا ہے۔تو وہ صرف خدا کی ذات ہے۔ جوں جوں انسان اس کی قربت میں آگے بڑھتا ہے اس کے لئے سکون و اطمنان کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں۔
مقدس آگسٹین 13 نومبر 354 میں تاگستے کے مقام پر پیدا ہوئے۔ اور28 اگست 430 میں 75 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔
ان کی ماں مونیکا نیک سیرت مسیحی خاتون تھیں۔ جبکہ اس کا باپ پتریس غیر مسیحی تھا۔ پتریس نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں اپنے بستر مرگ پر بپتسمہ لیا۔
مقدس آگسٹین کا شمار کلیسا کے نامور ابتدائی فلسفیوں اور ماہر الہیات میں ہوتا ہے۔
علم الہیات کے مختلف موضوعات پر اپنی تخلیقی خدمات کی وجہ سے انہیں اہم مقام حاصل ہے۔ ان کی زندگی پر افلاطونی نظریات، ارسطو کے فلسفے اور مقدس امبروز کی روحانیت نے انمٹ نقوش چھوڑے۔ ان کی مشہور زمانہ کتب
شہر ِخدا ٭ مسیحی عقائد اور ٭ اعترافات ہیں۔
اعترافات کو مسیحی الٰہیات اور روحانی ادب میں خاص مقام حاصل ہے۔ ان کی اس تخلیق کو سوانح عمری لکھنے والوں کے لئے قابل تقلید سمجھا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ انہوں نے
٭پاک تثلیث
٭موروثی گناہ
٭آزاد مشیت (مرضی)
٭ساکرامنٹوں
٭الہیٰ صفات اور
٭تقدیر جیسے موضوعات پر بھی نہایت مفصل اور مدلل اظہار خیال کیا جو آنے والے مصنفین کے لئے مشعل راہ بنا۔
مقدس آگسٹین اوائل جوانی سے ہی قلبی سکون و اطمینان کی تلاش میں تھے۔ لیکن ان کی اس جستجو کا محور دنیاوی شان و شوکت، انسانی حسن و جمال اور عشق مجازی تھا۔ لیکن جب اسے ان دنیاوی علوم، مذہبی روایات اور عقیدوں میں ذہنی اور روحانی سکون نہ ملا تو اس نے مسیحیت کی طرف رجوع کیا۔
مقدس آگسٹین نے 386 میں خداوند یسوع مسیح کو قبول کیا۔
اور 31برس کی عمر میں بپتسمہ لیا۔
391
میں ان کی کاہنانہ مخصوصیت ہوئی ۔ -
395
میں آپ معاون بشپ اور دو سال کے اندر وہ ہپو کے بشپ مقرر ہوئے۔
اکثر کہا جاتا ہے کہ ان کی زندگی میں یہ تبدیلی ان کی ماں کی دعاؤں کا نتیجہ تھی۔مقدس آگسٹین کی ماں نہایت پاک اور خوب سیرت عورت تھی اس کی زندگی کی اہم ترین خواہش تھی کہ اس کا بیٹا خداوند کی طرف رجوع کرے اور اپنے علوم، تعلیم و تربیت اور خدا داد ذہانت کو خداوند کے جلال کے لئے استعمال کرے۔ بالا آخر اس کی دعائیں رنگ لائیں اور اس کے بیٹے نے اپنی زندگی خداوند کے نام کردی۔
مقدس آگسٹین اپنی تبدیلی حیات اور مسیحیت میں اپنے ایمانی سفر کا بیان یوں کرتے ہیں کہ ایک رات میں نےخواب میں ایک بچے کو یوں کہتے سنا۔
اٹھ اور پڑھ - میں نے بائبل مقدس کھولی اور یہ حوالہ میری آنکھوں کے سامنے آیا۔
رات بہُت گُزررگئی
اور دِن نِکلنے والا ہے۔
پَس ہم تاریکی کے کاموں کو ترک کر کے روشنی کے ہتھیار باندھ لیں۔
جَیسا دِن کو دستُور ہے شایستگی سے چلیں نہ کہ ناچ رنگ اور نشہ بازی سے۔ نہ زناکاری اور شہوت پرستی سے اور نہ جھگڑے اور حسد سے۔
بلکہ خُدا یِسُوع مسِیح کو پہن کو اور جِسم کی خواہشوں کے لِئے تدبِیریں نہ کرو۔
رومیوں 13 باب 12-14 -
وہ کہتے ہیں کہ میں یہ آیات پڑھتے ہی رک گیا اور اس سے آگے نہیں پڑھ سکا اور نہ ہی پڑھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
کیونکہ یہ پڑھتے ہی کلام کی روشنی میری روح کے نہاں خانوں تک کچھ یوں پہنچی کہ میرے دل سے تمام شکوک وشبہات اور بے یقینی اور بے ایمانی کے بادل چھٹ گئے۔ اور یک لخت میری روح کی آنکھیں کھل گئیں۔
مقدس آگسٹین اپنی سوانح حیات میں اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ جسمانی، ذہنی اور روحانی سکون و اطمینان کے لیے انہوں نے اپنی زندگی میں مختلف مکتبہ ہائے فکر کا بغور مطالعہ کیا۔
سکون کی جستجو میں انہوں نے مذہبی عقائد اور روایات کو بخوبی پرکھا۔ لیکن انہیں کہیں بھی سکون نہ ملا۔ اسی سکون و قرار کی تلاش میں میں انہوں نے دنیاوی عیش و عشرت اور عشق و عاشقی کی طرف بھی رجوع کیا لیکن پھر بھی ان کی روح کی تشنگی نہ بجھ سکی۔
مقدس آگسٹین کہتے ہیں کہ میں نے افلاطون کے ساتھ ساتھ بہت سے نامور دانشوروں اور دانشمندوں کی تحریروں کا مطالعہ کیا ہے۔ اور انہیں بہت خوبصورت اور بامعنی پایا۔
لیکن میں نے ان میں سے کسی کو یہ کہتے نہیں سنا۔
اَے مِحنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہُوئے لوگو
سب میرے پاس آو۔
مَیں تُم کو آرام دُوں گا۔
میرا جُوا اپنے اُوپر اُٹھا لو اور مُجھ سے سِیکھو۔
کیونکہ مَیں حلِیم ہُوں اور دِل کا فروتن۔
تو تُمہاری جانیں آرام پائیں گی۔
کیونکہ میرا جُو ا مُلاءِم ہے اور میرا بوجھ ہلکا۔
متی 11 باب 28-30
جب ساری جستجو اور تگ و دو کے بعد بھی ان کے دل کو کہیں قرار اور ان کی روح کو کہیں سکوں نہ ملا تو ان کو یہ احساس ہوا۔کہ حقیقی سکون و اطمینان روح کا قرار اورجسم کی راحت کا راز صرف خداوند کی ذات پر توکل، عبادت و بندگی، ایمان و تیقن،اس سے پیار و محبت اور اس کی حمدوثنا میں پنہاں ہے۔ ہمارا وجود خداوند کی ذات کا مرحون منت ہے۔
کیونکہ اس نے ہمیں بڑی مہارت سے اپنی شبیہ پر خلق کیا ہے۔
وہ ہمارے دلوں کے راز اور ہماری روح کی تڑپ کو بخوبی جانتا ہے۔
وہ ہمارے وسوسوں، ہماری پریشانیوں۔ بے قراریوں بے چینیوں، گھبراہٹوں سے بخوبی واقف ہے۔
اس لئے وہی ان سب کو دور کر کے ہمارے دلوں کو قرار اور روح کی تشنگی کو مٹا سکتا ہے۔
کیونکہ خالق اپنی مخلوق کی رگ رگ سے واقف ہوتا ہے۔
بالآخر جب مقدس آگسٹین کو خداوند میں حقیقی سکون و اطمینان ملتا ہے تو اس کی روح کچھ یوں گنگنا اٹھتی ہے۔
اے حسن اول و آخر
اے منبع ء عشق و محبت
مجھے کیوں اتنی دیر لگی
تجھے اپنا بنانے میں
تیری محبت اپنانے میں
تو مکیں تھا میرے دل کے اندر
اور میں تجھ سے رہا سدا غافل
تو مجھ میں تھا
اور میں تجھ کو ڈھونڈ رہا تھا اور کہیں
دلفریب اور فانی چیزوں میں
وجود ہے جن کا بس تجھ سے
اور بن تیرے جو کچھ بھی نہیں۔
تو مجھ میں تھااور میں تجھ سے تھا ناواقف
میں گم تھا دنیاوی چمک دمک میں
جو چمک دمک بس تجھ سے تھی
اور بن تیرے کچھ بھی نہ تھی۔
پھر تو نے مجھے پکارا یوں
میری آنکھوں سے پردہ اتارا یوں
میری روح کی آنکھیں کھل گئیں
تیرے نور سے میرے زندگی کی
سب سیاہیاں دھل گئیں
تیری خوشبو میرے بدن میں پھیلی یوں
کہ میری ہر اک سانس سے
تیری ہی مہک آنے لگی
برسوں سے میری پیاسی روح
گن تیرے ہی گانے لگی۔
جب سے میں نے دیکھا ہے تجھ کو
بس تیری ہی آس لگی ہے
میرے تن من میں اب اے خدا
تیری ہی پیاس جگی ہے
تیرے اک لمس سے دل کو میرے
اک عجب قرار ملا ہے
تیری قربت میں اے میرے خدا
روح کو میری نکھار ملا ہے۔
مقدس آگسٹین کے سارے مطالعہ اورعلم و تجربات کا نچوڑ یہ تھا کہ اگر ہم حقیقی سکون چاہتے ہیں تو یہ صرف ہمیں خداوند کی ذات میں ہی مل سکتا ہے۔ نیاوی چمک دمک،عیش وعشرت اور مال و دولت کے پیچھے بھاگنا صرف وقت کا زیاں ہے اور کچھ نہیں۔
مقدس آگسٹین کہتے ہیں کہ دنیاوی شان و شوکت اور دنیاوی علوم انسان کو مقام،شہرت اورمرتبہ تو دلا سکتے ہیں لیکن ذہنی اور روحانی سکون نہیں۔ ہم مقدس آگسٹین کی زندگی سے یہ سیکھ سکتے ہیں حقیقی سکون صرف خداوند کی ذات میں ہی ہے۔ مقدس آگسٹن کی زندگی ان لوگوں کے لیے پیغامِ امیدِ نو ہیجو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ماضی کی غلطیوں، کوتاہیوں اور گناہوں کی وجہ سے خداوند کی رحمت، شفقت و محبت اور معافی کے دروازے ان کے لئے مستقل بند ہو چکے ہیں۔
مقدس آگسٹین اس حقیقت کی یاد دلاتے ہیں کہ خداوند اپنی معافی کے دروازے کسی کے لئے کبھی بھی بند نہیں کرتا بلکہ جب بھی کوئی شخص پشیماں دل سے اپنے گناہوں کا اقرار کر کے خداوند کی طرف رجوع کرتا اور معافی مانگتا ہے وہ سکون و قرار کے دروازے اس کے لئے کھول دیتا ہے۔
کیونکہ خُداوند رحِیم اور کرِیم ہے۔
قہر کرنے میں دِھیما اور شفقت میں غنی۔
وہ سدا جِھڑکتا نہ رہے گا۔ وہ ہمیشہ غضب ناک نہ رہے گا۔
اُس نے ہمارے گُناہوں کے مُوافِق ہم سے سلُوک نہیں کِیا اور ہماری بدکارِیوں کے مُطابِق ہم کو بدلہ نہیں دِیا۔
کیونکہ جِس قدر آسمان زمِین سے بُلند ہے اُسی قدر اُس کی شفقت اُن پر ہے جو اُس سے ڈرتے ہیں۔
جَیسے پُورب پچھم سے دُور ہے وَیسے ہی اُس نے ہماری خطائیں ہم سے دُور کر دِیں
جَیسے باپ اپنے بیٹوں پر ترس کھاتا ہے
وَیسے ہی خُداوند اُن پر جو اُس سے ڈرتے ہیں ترس کھاتاہے۔
زبور 103 8-13
مقدس آگسٹین سے منسوب چند اقوالِ زریں
خدا مجھے یوں پیار کرتا ہے جیسے میرے علاوہ اس دنیا میں اس کے لئے اور کوئی ہے ہی نہیں۔*
٭ غرور انسان کو شیطان اور حلیمی انسان کو فرشتہ بنا دیتی ہے۔
٭ گنہگار سے پیار اور گناہ سے نفرت کرو۔
٭ نیکوکار انسان غلام ہو کر بھی آزاد اور بدکار آزاد ہو کر بھی غلام رہتا ہے
٭ خدا کی فطرت نجات دینا ہے نہ کہ ہلاک کرنا۔ اس لئے وہ گنہگار کے ساتھ ہمیشہ صبر سے کام لیتا ہے اور اسے اپنی روشیں تبدیل کرنے کا ہرممکن موقع دیتا ہے۔
٭ خدا کی محبت میں گرفتار ہونا حسین ترین رومانوی تجربہ، اس کی جستجو سب سے بڑی مہم جوئی اور اسے پا لینا انسانیت کی عظیم ترین کامیابی ہے۔
٭ اے خداوند میری روح ایک چھوٹے سے گھر کی مانند ہے۔ جو تیری بے بہا محبت کے لئے نہایت چھوٹا ہے۔ تو اسے اپنے فضل سے کشادہ کردے۔ یہ گھر بہت خستہ حال ہے۔ تو اپنی رحمت سے اس کی تزئین و آرائش کردے۔ میں اپنی زندگی کی کمزوریوں اور کوتاہیوں سے بخوبی واقف ہوں۔ تو اپنی شفقت سے انہیں دور کر دے۔ کیونکہ بس تو ہی ہے جو میری زندگی کو کاملیت عطا کر سکتا ہے۔
٭ پرسکوں زندگی کا راز خدا کے ساتھ چلنے خدا کے لئے جینے اور خدا سے پیوستہ رہنے میں ہے۔
٭ اے خداوند مجھے ہمیشہ اپنے پروں کے سائے تلے چھپائے رکھ۔ بچپن میں ہماری ہدایت کر اور بڑھاپے میں ہمارا سہارا بن۔ کیونکہ تیری ہدایت سب ہدایات سے افضل اور تیرا سہارا سب سہاروں سے اعلیٰ ہے۔
٭٭٭
مقدس آگسٹین سوانح حیات، روحانیت اور الہیات
تحریر و تحقیق
یونس فرانسس